ایبٹ روڈ

FB_IMG_1519297478369

 

 

ایبٹ روڈ

تحریر: سبین علی

لاہور کی سردیوں میں منفی درجہ حرارت شاذونادرہی ہوتا ہے وہ بھی فروری کے مہینے میں لیکن اُس سال ایسا ہوا ۔ فروری کی آٹھ تاریخ اور درجہ حرارت منفی دو ساتھ ہی گیس کی لوڈ شیڈنگ اور شمالی علاقوں سے آنے والی سرد ہوائیں رگوں میں خون بھی منجمد کیے جا رہی تھیں۔ لیکن ایسے شدید موسم جو کہرے اور برف سے ڈھکے ہوں کچھ رنگوں اور انسانوں کو بہت نمایاں کر دیتے ہیں۔ جیسے برفیلے موسم میں کافی کی خوشبو دور تک پھیلتی ہے ۔جیسے سرد موسم میں سانس کی حدت بھاپ کی مانند نظر آتی ہے ۔ وہ بھی کچھ ایسی ہی مختلف تھی بیک وقت بولڈ اور خوف زدہ۔ زندہ دل اور دلیر شہر لاہور کے درودیوار بھی سرد ہواؤں اور بارشوں کے سبب نم آلود سے تھے ۔ دن کے وقت سکولوں کالجوں کے طلباء کا ازدحام ہوتا تو رات گئے تک شہر بھر کی فوڈ سٹریٹ اور روایتی کھابوں کی دکانیں پر رونق رہتیں۔ حالانکہ فروری میں ہی بسنت کا تہوار آتا ہے مگر پتنگ بازی پر سخت پابندی عائد تھی۔ ڈور پر مانجھا پھیرنے والوں ،دو تاوا ڈھائی تاوا گڈا ،پری اور پتنگ بنانے والوں کے کاروبار میں شدید مندی تھی ۔ان کاریگروں میں سے کوئی انارکلی اور لبرٹی کے باہر ازار بند اور بنیانیں فروخت کرنے لگا تھا تو کوئی پرانے بازاروں میں موم بتیوں کے پیکٹ بیچ رہا تھا۔ اس شہر کے باسی لوڈ شیڈنگ کے باوجود اپنے دِیوں کی لو اونچی رکھتے ہیں۔ یو پی ایس، ایمرجنسی لائیٹس چائنہ سے درآمد شدہ نازک سی لالٹینوں اور موم بتیوں تک کا بڑا اسٹاک شہر کی دکانوں میں موجود تھا ۔ راوی اپنے طویل دو رویہ پلوں کے نیچے ریت اور کیچڑ میں لتھڑا اس طرح پیٹ کے بل رینگتا تھا گویا وہ دریا نہیں کیچڑ میں دھنسی سول مچھلی ہو جو زندگی کی تگ و دو کے لیے ہر طرح کے حالات سے سمجھوتا کرنا جانتی ہے ۔ جس کی سانسیں سائفن کے اُس پار کسی ہرجائی نے نیلم کے عوض زبردستی گروی رکھ لی ہیں لیکن اسے کسی نہ کسی طرح پنجند تک پہنچنا ہے ۔

مجھے بھی راوی کی مانند سست روی سے اپنے کام نپٹاتے ہی سہی مگر سمندر پار جانا تھا ۔ جہاں راوی کے پانیوں پر سندھ طاس کے ایگزٹ ایمیگریشن کی مہر مسلط یے وہاں ہم انسان بنا ان سرکاری مہروں کے خشکی یا تری کی سرحد کس طرح پار کر سکتے ہیں۔ اس لیے اپنے ڈھائی ماہ کے بیٹے کا کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ بنوانا بھی اتنا ہی اہم تھا جتنا راوی کا پنجند کی طرف یا شمالی ہواؤں کا لاہور کی جانب سفر ۔ مُنے کو پیدائش کے فقط بیس دن بعد ہوئے نمونیے نے مجھے ایسا ہلا کر رکھ دیا تھا کہ دسمبر جنوری کی سردی میں اسے پاسپورٹ آفس تک لیجانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ آج کل کرتے کرتے فروری کا مہینہ آن پہنچا اور ہماری واپس کے دن شروع ہوئے تو بھاگم بھاگ کاغذی کاروائیاں مکمل کرنا شروع کیں۔ تب ایبٹ روڈ کے پاسپورٹ مرکز کے گرد عوام کا ہجوم اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ لوگ منہ اندھیرے آ کر ٹوکن لینا شروع کر دیتے تھے ۔ بنک کی فیس کا ٹوکن تو مل گیا تھا اور میں فارم کے حصول کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی ۔ساتھ کی نشستوں پر کئی خواتین اور لڑکیاں براجمان تھیں کئی دور دراز شہروں سے آئے لوگ بھی تھے ان میں سے لاہور کی خواتین اور لڑکیاں اپنے لہجے ، خوش لباسی اور اعتماد سے صاف پہچانی جا رہی تھیں۔ میرا اور اسکا ٹوکن نمبر آگے پیچھے تھا اس لیے وہ متوحش سی لڑکی کافی دیر سے میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھی تھی وہ وقفے وقفے سے چوکنی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتی اور پھر کچھوے کی مانند اپنے نادیدہ خول میں سمٹ جاتی ۔

فارم کے حصول کے بعد کاغذات کی جانچ پڑتال کے مرحلے تک پہنچتے کافی وقت بیت چکا تھا سورج کی کرنیں گہرے بادلوں سے جھانکنے کی ہمت صبح دس بجے کے بعد ہی کر سکی تھیں ۔ دفتری عملے کی میزوں پر چائے کے بھرے کپ ٹھٹھرے ہوئے پڑے تھے ۔ سگریٹ کا بدبودار دھواں اور لوگوں کی ملی جلی آوازوں کا شور فضا میں مسلسل آلودگی پیدا کر رہا تھا۔
اتنے میں میرے بیٹے نے زپ لگے بے بی بلینکٹ میں کسمساتے ہوئے بھوک سے رونا شروع کردیا ۔ بچوں کی کارٹ میں لیٹنا تو اسے گوارا ہی نہیں تھا۔ اسے گود میں لیے الٹے ہاتھ سے قریب پڑے بیگ میں سے خشک دودھ کا ڈبہ نکالا اور گرم پانی کی فلاسک میں سے ابلا ہوا پانی بوتل میں انڈیلنے کی کوشش کی مگر منا سنبھلنے میں نہ آ رہا تھا۔ ۔

سُنیں پلیز ۔۔۔۔ کیا ایک منٹ کے لیے میرے بے بی کو اٹھائیں گی میں اسکا فیڈر تیار کر لوں۔

کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ کمبل میں لپٹے منے کو دیکھتے ہوئے گھبرا سی گئی ۔۔۔۔

بے بی کو ۔۔۔۔ کیسے ۔۔۔ ؟ مجھے ۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔

مگر اسکی بات مکمل ہونے سے پیشتر ہی میں نے کمبل میں لپٹا منا اسکی طرف بڑھا دیا ۔

ایک دم اسکا رنگ فق ہو گیا اور اس نے منے کو ایسے پکڑا جیسے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہو۔

پھر کھڑکی سے چھن کر آتی چند کرنوں کی طرف منے کو کیے خود سایے میں ہو گئی۔ جیسے اپنا سایہ اس پر پڑنے سے بچانا چاہتی ہو۔

تیزی سے ہاتھ چلاتے میں نے فیڈر میں تین اونس پانی ڈالا پھر تین چمچ خشک دودھ کے ڈال کر ڈھکن بند کیا اور بوتل ہلا کر پاؤڈر پانی میں حل کرنے لگی۔

اسی دوران اس لڑکی کے پریشان تاثرات اور منے کی طرف سے گریز کی وجہ سے میرا ذہن خیالات اور شکوک کے تانے بانے میں الجھنے لگا۔ منے کے چِھلے میں اس کی دادی اجنبی اور اپنے تئیں مشکوک خواتین کو اُسے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ بے اولادی کے لیے ٹوٹکے یا جادو ٹونے کرنے والیوں اور تعویذ پہننے والی عورتوں کا پرچھاواں لگ جاتا ہے میرا پہلا پوتا ہے اس پر کسی کی بری نظر یا برا سایہ نہ پڑے ۔۔ اور تب مجھے لگ رہا تھا اوپر اوپر سے ان کی بات سے ہزار اختلاف رکھنے کے باوجود میں بالکل ویسی ہی دل میں واہموں کو جگہ دینے والی روایتی ماں بنتی جا رہی ہوں۔

کہیں اس لڑکی نے میری ساس کے الفاظ تو نہیں سن رکھے ۔ کیسے گھبرا کر اپنے سایے سے بھی بچا رہی تھی ۔ جانے کون ہے بیچاری شادی شدہ ہے بھی یا نہیں بچے ہیں یا کوکھ جلی ہے ؟

منا فیڈر پینے کے بعد پھر سو گیا۔ میں نے سکون کا سانس لیتے ہوئے اس لڑکی کا شکریہ ادا کیا۔ اور پہلی بار غور سے اسکا حلیہ دیکھا ۔ وہ کافی خوش شکل تھی مگرجلد میں پیلاہٹ گھلی تھی۔ عمدہ تراش خراش سے سلے شلوار قمیض میں ملبوس اسکا جسم قدرے فربہی مائل تھا۔ گردن اور چہرے پر چھائیوں کے نشانات فاؤنڈیشن سے چھپانے کی کوشش کافی حد تک کامیاب تھی ۔

آپ کس ملک کا سفر کرنے والی ہیں۔

دبئی کا ۔۔۔

اس نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا

اتنے میں اس نے پھر ہال کے باہر کھڑکی کے قریب کھڑے کسی سایے کی جانب دیکھا ۔

جاب کرتی ہیں وہاں ؟

میں نے دوسرا سوال داغا

نہیں

کام کی تلاش میں جا رہی ہوں۔

اصل میں۔ ۔ ۔ آج کل یہاں مندا بہت ہے ۔

پہلے میں لان کے کپڑوں کے لیے ماڈلنگ کرتی تھی۔ اب کام نہیں مل رہا تو۔ ۔ ۔ ۔ وہاں دبئی میں ۔ ۔ ۔ ماڈلنگ کا کوئی کام تلاش کروں گی۔

میں نے اچھنبے سے اسکی جانب دیکھا اسکا فربہی مائل جسم یقیناً ماڈلنگ کے شعبے میں رکاوٹ بن رہا ہوگا ۔

دبئی میں کافی اپورچیونٹیز ہیں آپ کو اچھی جاب مل جائے گی ۔
جی شاید ۔
اس کے چہرے پر گریز اور ہچکچاہٹ کے واضح تاثرات جھلکنے لگے۔

سورج دوبارہ دبیز بادلوں کے پیچھے چھپ گیا تھا ۔ تیز ہوا کے ساتھ پھر سے خنکی بڑھنے لگی اور کچھ دیر پہلے پڑنے والی دھوپ کی ساری حدت ایک دم ختم ہو گئی تھی ۔

کھڑکی کے باہر وہ شخص دوبارہ دکھائی دینے لگا جو سایے کی مانند اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ اس نے بیزاری سے اس کے اشاروں کا آنکھوں ہی انکھوں میں کوئی جواب دیا اور آگے سے اس شخص نے ایک ہوائی بوسہ اس کی طرف اچھال دیا۔ اس آدمی کی ہوس بھری نظریں اور للچائی سی شکل واضح نظر آ رہی تھی ۔ ہال میں موجود کئی لوگوں نے ناگواری سے ان دونوں کی جانب دیکھا ۔ ماڈل کے تاثرات ایسے تھے گویا کسی نے اسے بھرے بازار میں عریاں کر دیا ہو۔ وہ پہلے سے ہی کئی مردوں کی نظروں کے حصار میں تھی اور اس کے بعد عورتوں نے بھی اسے بغور دیکھنا شروع کر دیا گویا وہ کوئی عجوبہ ہے ۔

سکول ،کالج ،باغات، سیرگاہیں، تاریخی عمارتیں ، مصور، فنکار، ادیب، شاعر ،ولی، گناہگار ،راگ رنگ اور بازار حسن کونسا ایسا رنگ ہے جو اس شہر کے رنگوں میں شامل نہ ہو۔ اور تب یہ اندازہ لگانے میں کوئی شبہ نہ رہا کہ اسکا تعلق لاہور کی زندگی کے کس رنگ سے تھا۔
اس کے چہرے پر اپنا راز فاش ہونے کی تکلیف تھی۔ آخر ایسا بھی کیا ہے چند پل اگر کسی کو اپنے دائرے سے فرار کے میسر آ جائیں ۔ پردہ پوشی نصیب ہو جانا یا پردہ پوشی کرنا بھی تو بہت بڑی بات ہے ۔
اپنی اپنی باری پر آگے پیچھے ہماری تصویریں بن چکی تھیں کاغذات کی جانچ بھی ہو گئی تھی اور بس آخری کاؤنٹر کا کام رہ گیا تھا۔ اپنے ساتھ آئے اس آدمی کی مسلسل اشارہ بازی کے بعد وہ بہت سنبھل کر بیٹھ گئی تھی ۔

کچھ دیر سے ایک خوش شکل اور نک سک سے تیار لڑکی ہماری دوسری جانب کھڑی مسلسل اپنے سیل فون پر مصروف تھی۔ بیچ بیچ میں اس کی آواز سنائی دیتی اور کبھی وہ ٹیکسٹ لکھنے لگتی ۔ کچھ بعد وہ لڑکی اُس کے ساتھ والی خالی نشست پر بیٹھ گئی۔

ہاں کروں گی بات اب رات کو
اگر نیا فون آج مل گیا تو۔ یہ والا سیٹ تو بالکل ہی بیکار ہو گیا ہے ۔
اج ہی ایزی پیسہ کروا دینا
ہمارا ٹوکن نمبر آنے والا ہے
بائے ۔۔۔۔
سنو ۔۔۔
چیٹ یاد سے ڈیلیٹ کر دینا۔۔۔۔۔ ابھی اسی وقت
تمھاری ببل گم نے پڑھ لی تو پھر ہنگامہ ہوگا
اوکے
لو یو ٹو ہنی بائے ۔۔۔
ماڈل نے حسرت بھری نظروں سے اس لڑکی کی جانب دیکھا ۔
ماہم ادھر آؤ
غالباً وہ اُس لڑکی کی والدہ تھی جو خفگی سے بلا رہی تھی
وہاں کیوں جا کے بیٹھی گئی ہو ؟
کیوں ماما کیا ہو گیا ۔
حد ہی ہوگئی ہے بے عقلی کی
کیوں بیٹھی تھی وہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شریف گھروں کی لڑکیاں کسی ایسی ویسی عورت کے ساتھ سیٹ پر نہیں بیٹھتیں۔
ایسی ویسی عورت کون ماما ؟
وووہ ۔ ۔ ۔
وہ حرافہ بازار کی عورت میں تو پہلی نظر میں ہی اسے پہچان گئی تھی۔ کیوں بیٹھی تو اُدھر ۔ ۔ ۔ ۔
اس کا وجود بڑی پتنگ سے بَو ہوئی پری کی مانند لرزنے لگا ۔ لیکن اُسی وقت کاغذات مکمل ہونے کے بعد رسید دینے کے لیے اس کا نام پکارا گیا تو وہ اٹھ کر چلی گئی ۔ اس کے بعد میں نے پاسپورٹ کی رسید لی اور باہر آ گئی۔ رکشے کی تلاش میں سڑک کے دونوں جانب نظر دوڑائی۔ ایبٹ روڈ پر شام سے پہلے ہی گہری دھند اترنے لگی تھی ۔ اب تو سنا ہے وہاں پر خالی دھند نہیں سموگ اترتی ہے شہر کی سڑکوں پر ٹریفک اور فضا میں رویوں کا سیاہ دھواں جو اتنا بڑھ گیا ہے ۔
Painting image Sarfraz Musawir

سمندر کے نام ایک عنائیہ

سمندر کے نام ایک غنائیہ

تحریر:سبین علی

میرے اردگرد بے شمار لوگ ہیولوں کی مانند رواں ہیں ۔ مگر ان کے سر نظروں سے اوجھل ہیں اور راہگزر پر ہر طرف اونچی ایڑی کے جوتوں پر ریشمی لبادے لہراتے نظر آتے ہیں۔ کسی جوتے کی ایڑی اتنی ,بلند ہے گویا قطب مینار ہو، کسی کی پیسا کے ٹاور جیسی جھکی کسی بھی پل گرنے کو تیار مگر انہیں پہننے والے پھر بھی ننگے پاؤں کچے راستے پر چلنے کو تیار نہیں ۔کئی ایڑیاں ایفیل ٹاور کے روپہلے ماڈل جیسی مرصع ہیں اور کئی ایڑیاں سنگِ سرخ سے تراشیدہ مناروں جیسی بلند پرشکوہ اور مغرور نظر آتی ہیں۔ مصنوعی عطر سے معطر لبادوں میں حکمرانی کی رعونت ہے ادب و فن کی نمود ہے عقل و ذہانت کی دمک ہے ۔
میں حیران ہوکر اُن بلند چہروں تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں مگر ننگے پاؤں ان رفعتوں تک جھانکنے سے قاصر فقط مرعوبیت سے اوپر تکتی ہوں ۔ اسی دوران کسی نوکدار ایڑی کی چھبن پاؤں کی بالائی سطح پر محسوس ہوتی ہے ۔
سی۔۔۔۔۔
منہ سے اک سسکاری نکلتی ہے ۔
تم دیکھ کر نہیں چل سکتیں !
یہ راہگزر تمھارے لیے نہیں ہٹو ۔۔۔۔۔
ننگے پاؤں چلو گی تو کانٹے ہی چبھیں گے ۔
آپ نے درست کہا ہوگا مگر میرے پاؤں میں تو آپ کی ایڑی کی نوک چبھی ہے ۔
پیچھے ہٹو
طریق ۔۔۔۔ طریق ۔۔۔۔۔۔
راستہ چھوڑ دو ۔۔۔۔۔
Stand aside
No tresspassing
لا تعداد برساتوں سے سینچا رستہ قدموں تلے کروٹ لیتا ہے اور پاؤں کے تلوؤں میں دل دھڑکنے لگ جاتا ہے ۔
خدایا! یہ کیا اضطراب ہے ؟
دل کبھی انگلیوں کی پوروں تو کبھی قدموں میں کیوں دھڑکنے لگتا ہے ۔ پوریں کپکپاتی نیلے برقی صفحے پر پھسلتی ہیں۔جھیلوں میں پرندوں کی ڈار کی مانند حروف اترنے لگتے ہیں ۔
رستہ پھر کروٹ بدلتا ہے ارد گرد مناظر تبدیل ہوتے ہیں ۔ دل پاؤں میں اتر آتا ہے میں گھٹنوں کے بل کچے رستے پر جھک جاتی ہوں ۔
نوکدار ایڑی سے فگار راہگزر کے چھلنی سینے سے زمین کی دھڑکن سنائی دینے لگتی ہے اور پاؤں کے تلوؤں سے نیم خنک مٹی ہم کلام ہوتی ہے ۔
ایک چھوٹے سے گڑھے میں بارش کا پانی بھرا پڑا ہے جو چھوٹے سے تالاب کا منظر پیش کرتا نیلے آسماں کا عکس دکھا رہا ہے ۔ چند ننھے مینڈک پھدکتے ہوئے پانی سے باہر نکلتے ہیں ، چند ثانیوں بعد پانی میں ارتعاش تھم جاتا ہے اور اس کے عکس میں درختوں کے لمبے سائے لہراتے ہیں ۔ شام کے وقت اندھیرا زرد کرنوں کا پیچھا کرتے زینہ زینہ زمین پر اترنے لگتا ہے ۔ ستاروں کے وہ سارے طاق جہاں اونچی ایڑی والے لوگ پہنچنے کی تگ و دو میں تھے اپنے عکس کے ساتھ زمین پر اتر آتے ہیں۔ سمندر میں رواں بادبانی کشتیوں کی مانند پیلا پتا سطح آب پر تیرتا ہے ۔ روشن دائروں کے مرکز میں ساکن قطبی تارہ جھک کر بیک وقت بحر الکاہل میں ڈولتی کشتی اور بارش کے پانی میں تیرتے پتے کو سمت کا اشارہ کرتا ہے ۔
دور پرے راہگزر کے کناروں پر اونچی ایڑیوں کا ہجوم بھاگتا گردنیں پھلانگتا اپنے مقرر کردہ راستے پر محو سفر ہے ۔ اتنے میں بے خانماں لوگوں، خانہ بدوش سیارچوں فگار انگلیوں والے انسانوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ پرلی جانب ایک متروک راہگزر پر رواں دکھائی دیتا ہے ۔
فن کیا ہے ؟ تخلیقیت کہاں سے جنم لیتی ہے ؟ یہ لوگ کس سمت میں رواں ہیں کیا مجھے ان کے پیچھے چلنا ہے یا ادھر ٹھہر کر نم مٹی سے مصاحبت اختیار کروں؟
میں تالاب کی طرف دیکھتی خود کلامی کرتی ہوں۔ چھوٹے سے تالاب کے پانی میں چاند کا عکس مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے اور کہنے لگتا ہے !
کیا، کہاں اور کدھر کی تلاش سے قبل تخلیق کے ابدی سمندر کی کچھ کہانیاں سنو گی !
ہاں کیوں نہیں۔
تو سنو !
پرانے دنوں کی بات ہے انسانی آبادیوں سے بہت دور ایک ویران ساحل پر بادشاہِ وقت نے پرانے قلعے کو عقوبت خانے کی شکل دے رکھی تھی۔ وہاں رات کو سمندر میں جوار بھاٹے اٹھتے اور مدوجزر سے موجیں اتنی بلند ہوجاتیں کہ دور دراز سے آ کر کوئی کشتی لنگر انداز ہونے کی ہمت نہ کرتی۔ ساحلی پہاڑی کے پتھر مدتوں سے اُن مشاق ہاتھوں کے منتظر تھے جو انہیں تراش کر دیدبان کی تعمیر میں صرف کر دیں تاکہ اجنبی زمینوں کی جانب سے آتی ہواؤں کی مانند وہاں بھولی بھٹکی کشتیاں بھی آکر اپنے لنگر ڈال سکیں اور انسانی آوازوں کا ارتعاش بھی سمندر کی لہروں کے شور میں ساحلوں پر سنائی دینے لگے ۔
مگر ہوا یہ کہ وہاں کے پتھروں کو بلند و بالا فصیلوں اور غلام گردشوں کی تعمیر میں استعمال کر لیا گیا۔ دور دیس سے اُس گھاٹ پر کشتیاں بھی آئیں مگر ان میں مسافروں کی بجائے قیدی لدے ہوئے تھے جنہیں پرانے قلعے کی آہنی زنجیروں میں مقید کر دیا گیا۔ ان قیدیوں کے کان سنگی دیواروں کے پار سے آتی سمندر کی مہک سونگھ سکتے تھے ، پتھروں سے الجھتی موجوں کا شور سن سکتے تھے مگر سمندر کو دیکھ نہ پاتے ۔ ایسے میں کئی برس بیت گئے روشنی تازہ ہوا اور فطرت کے ہر نظارے سے محروم قیدیوں کا احوال کسی کو معلوم نہ تھا۔ ایک رات سمندر میں مہیب طوفان اٹھا ۔ سرکش موجیں قلعے کی فصیلوں سے سر پٹکنے لگیں۔ سپاہیوں نے آہنی جنگلوں پر پڑی ترپالیں ہٹا دیں کسی فرار کا اندیشہ نہ تھا ۔ اس طوفان میں جو بھاگنے کی کوشش کرتا موجوں کا شکار ہو جاتا یا سنگلاخ چٹانوں پر طوفانی ہواؤں کے زور سے پٹخیاں کھاتا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ۔ حفاظتی جنگلوں اور روشن دانوں سے ترپالیں اٹھانے کے بعدسمندر کی طوفانی موجوں اور قیدیوں کے بیچ کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ چار دن بعد پانی اترا اور قلعے کے معمولات لوٹ آئے ۔ مگر سمندر سے اتصال کے بعد قیدیوں کے اندر بہت کچھ بدل چکا تھا ۔ ان قیدیوں نے کچھ ہی دنوں بعد اپنی پھٹی قمیضوں، ترپال کے چیتھڑوں کاغذ اور گتے کے ٹکڑوں پر فن پارے تخلیق کرنا شروع کر دیے ۔ مصوری کے نمونوں اور مجسموں کی شکل میں ان کے تخیل کے دریچے وا ہونے لگے ۔ گہرے نیلے پانیوں میں ڈوبے جزیروں کے عکس ، آزادی کے سفر کا استعارہ بنی بادبانی کشتیوں کے نمونے ، آہنی سلاخوں کے عقب سے پھوٹتے ہوئے سبزہ و گل ، بانس کی شاخوں سے بنی لاتعداد دوربینیں جو چاند کو حسرت سے تکتی تھیں۔ اذیت اور تکلیف میں ڈوبی لہروں کے رنگ ،کارنس پر دھری جامد گھڑی اور خوبصورت ساحلوں پر چہل قدمی کرتے جوڑے ہر تصویر گویا ایک روزن تھا جس کے واسطے سے فن اور فنکار کی روح میں جھانکا جا سکتا تھا۔
فن جو درد کی کوکھ سے پھوٹا، محرومی کرب اور شدت احساس کی مٹی سے نمو پایا۔ آفاقی سمندر نے اس کے در پر دستک دی فطرت خود اس کی اتالیق بنتی اور وہ فن پارے وجود میں آئے جو اونچی ایڑی والے تربیت یافتہ فنکار بھی تخلیق نہ کر سکے ۔
ننھے سے تالاب میں بہتا پیلا پتا کنارے آن لگا ۔ بگولے نے نرمی سے اسے پانی سے باہر نکالا اور ہوا کے رخ پر اچھال دیا ۔ وہ اڑا ، اٹکا پھر اڑا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔
چاند اپنا سفر جاری رکھے افق کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا ہے ۔ میں محویت کے عالم میں سر اٹھا کر بدلیوں کے بیچ تکتی ہوں۔ رات کا ایک پہر بیت چکا ہے ہوا میں خنکی بڑھنے لگی ہے ۔ عکس میں چمکتا چاند پھر گویا ہوتا ہے ۔
ایک دور دراز ساحل پر کشتیوں میں گانے والے مچھیروں کی بستیاں تھی ۔ ان ساحلوں اور مچھیروں کی بستیوں سے بھی بہت دور وادیوں میں چرواہے اپنے جانور چراتے تھے ۔ ایک بوڑھا معذور چرواہا اپنے نو عمر بیٹے کے ساتھ سبزے سے گھری کٹیا میں رہتا تھا۔ وہاں دن کو بادِ شُمال کے ساتھ تتلیاں رقص کرتیں، بیل گائیں اور گھوڑے جامنی پھولوں سے بھری گھاس چرتے اور رات کو کہکشاؤں کے سنگ جگنو چمکتے ۔ وہاں بحر عمیق سے امڈتے بادل لہروں کی صورت میں تیرتے ہوئے آتے اور فلک بوس پہاڑوں سے ٹکرا کر روز بارش برساتے ۔ جب رات کا اندھیرا پھیلنے لگتا تو لڑکا اپنے جانوروں کو ہنکاتے ہوا باڑے میں لے آتا ۔ دودھ
دوہتا آگ دہکاتا اور اپنی بانسری لے کر بیٹھ جاتا۔ بوڑھا باپ اپنی مڑی تڑی انگلیوں سے کاغذ پر دوہرے اور گیت لکھتا۔ اس کے دوہرے ، گیت اور نظمیں خانہ بدوش ہواؤں کی مانند سفر کرتیں اُن چراہ گاہوں سے نچلی وادیوں، قریوں اور مچھیروں کی بستیوں تک جا پہنچیں ۔ مچھیرے جب گہرے پانیوں میں مہینہ مہینہ بھر شکار پر رہتے تو ہچکولے کھاتی کشتیوں میں تھکن اتارنے کو اُس بوڑھے کے گیت گاتے ۔ اور میں فلک کا مسافر ہر رات اُس چرواہے کو بھی دیکھتا اور بڑے شہروں میں فن پاروں کی نمائشوں اور عالی شان تقریبات کا احوال بھی جانتا۔
ایک دن جب اس بوڑھے چرواہے کو شہر سے آئے قدر دان وہیل چئیر پر بٹھا کر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لیجا رہے تھے تو اُسی رات قیدیوں کے بنے فن پارے بادشاہ کے ہرکاروں کے ہاتھ لگے جنہیں دنیا کے عظیم ثقافتی مرکز میں پہنچا دیا گیا ۔ کچھ عرصہ وہ فن پارے فقط خاص عمائدین اور اساتذہ فن کے سامنے پیش کیے جاتے رہے ۔ پھر ایک دن اُن لوگوں نے طے کیا کہ ان فن پاروں کو عوامی نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔
جب یہ مجسمے اور مصوری کے نمونے دنیا کی نظر میں آئے تو خوفناک مجرم قرار گئے قیدیوں کی روح کی معصومیت اور خوبصورتی دنیا کی نظروں میں آنے لگی۔ درد اور محرومی سے سینچا گیا ہر فن پارہ تخلیقی اپچ میں بڑے شاہکاروں کو مات دیتا دکھائی دینے لگا تو اونچی ایڑی والوں نے غیض و غضب سے اپنی انگلیاں چبانا شروع کر دیں۔ اُن کے احتجاج کی وجہ سے نمائش موقوف کر دی گئی مگر اُس وقت تک ان کی شہرت دنیا میں پھیل چکی تھی۔
ان فن پاروں کا کیا ہوگا ؟میں تجسس سے استفسار کرتی ہوں۔
ابھی ایک مدت تک انہیں چھپا کر رکھا جائے گا ۔ جب وقت اپنی چال بدلے گا تو یہی فن پارے کسی عالی شان عجائب گھر کی زینت بنیں گے اور کوئی قیمتی لبادے والا اکشن ہاؤس میں ان فن پاروں کی بولی میں اپنی شناخت پوشیدہ رکھ کر حصہ لے گا ۔ وہ قلعہ اور ساحل سیاحوں کے لیے کھولا جائے گا ۔ اور اس چراہ گاہ میں جہاں بوڑھا چرواہا گیت لکھتا تھا۔ جہاں جگنو چمکتے اور تتلیاں رقص کرتی تھیں وہاں سیر گاہیں بنیں گی ۔
اتنے میں دیکھتی ہوں کہ اونچی ایڑیوں کا ہجوم پھر سے اسی راہگزر پر ایک دوسرے کی گردنیں پھلانگتا روندتا چلا آ رہا ہے ۔ میں اُٹھ کر اس راستے کو بغور دیکھتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مدار نما راستہ ہے ۔ پھر آنکھیں پھاڑے اس چھوٹے سے قافلے کو تلاش کرنا چاہتی ہوں جو متروک راہگزر پر رواں تھا مگر وہ نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں اور راستے پر فقط پیروں کے نشان باقی ہیں ۔
مجھے کس راہگزر پر جانا تھا ؟
چاند مسکراتا ہے

جس راہ پر تم چاہو

وجہہ کریم

وجہہ کریم

جب کبھی میں سفر ذات کی
تیرگی میں گم ہوئی
تو سورج کی اُجلی دھوپ نے
ہاتھ پکڑ کر میرا
تیرے چہرے کا روپ دکھایا
جب کبھی اداسیوں میں گھرے
کھڑکی بھی بند کر لی من کی
تو بادِ فلق نے سرسراتے ہوئے
تیرے نرم لہجے میں
پکارا مجھے
جب کبھی دل بوجھل ہوا
گرد سے اَٹا پڑا
تیرے ہاتھوں نے ساری کثافت جھاڑی
اپنی اوک میں بھر کر سینے میں رکھا
پھر سے دھڑکنا سکھایا
جب کبھی گھری مایوسیوں میں
تیری نرم مسکراہٹ نے کہا
اپنے سارے میل کچیل
میری رحمت کے ابدی سمندر میں دھو لو
تمھاری ڈور پکڑ کر
تشکیک کی کھائی کے اوپر
میں انا الحق کی گھاٹیوں سے
استغفار پڑھتے گزری
تم مجھے ہر جگہ ہر آن ملے ہو
اے مہربان چہرے والے
زندہ و قائم دائم

سبین علی

خواب کی شیلف پر دھری نظم

 خواب کی شیلف پر دھری نظم
received_1651668258232891
 گر سمندر مجھے راستہ دیتا
تو سفر کرتی اس قندیل کے ساتھ
جو شام کا ملگجا پھیلتے ہی
ساحل پر روشن ہو جاتی ہے
اڑتی ققنس کے ہمرکاب
افق کی مسافتوں میں
تیرتی مچھلیوں کے سنگ
کھوجتی ریگ زاروں میں
نیلگوں پانیوں کو
سرمئی پہاڑوں میں
جادوئی سرنگوں کو
لیکن میرے سرہانے
آدھے پونے خواب پڑے ہیں
اور میری شیلف پر دھرے ہیں
کانچ کے نازک برتن
سبزی کے چھلکے
گھر کی دیواروں پر
میرے بیٹے کی کھنچی لکیروں میں
ان سنی کہانیاں ہیں
 جو مسکراتی کھلکھلاتی ہیں
اور باتیں کرتی ہیں
آنکھوں ہی آنکھوں میں
 وہ کہانیاں سنتی
میں دفعتاً چونک جاتی ہوں
 ادھورے خواب بھی میرے
کتنے شرمندہ تعبیر ہوئے
مگر پھر بھی ڈرتی ہوں
کہ میری بیٹی
آدھےخواب دیکھ کر
انہیں ادھورا چھوڑ نہ دے
بوند بوند دعا اترتی ہے
دل کی زمیں پہ
پہلی بارش کی مانند
اور سیلی مٹی سے شاخ در شاخ
تمنائیں  پھوٹ پڑتی ہیں
سبین علی

رات کے بعد کا منظر


7ae481166b035d3791c2953b7f199d01--rain-painting-acrylic-paintingsمیں نے دیکھا ہے
دور خلاؤں میں
رات کے بعد کا منظر
جہاں اندھیرا دبیز سکوت تلے
ظلمت سے ہم آغوش ہوتا ہے
اور دور کسی کہکشاں میں
اک تارا ٹوٹتا ہے
جب دھوپ گھنے درختوں سے رستہ پوچھتی ہے
اور سایہ پاؤں پسارے اسکی ہنسی اڑاتا ہے
صبح کی کرن سفر در سفر
دھند کے پار کھوجتی ہے
ان قدموں کے نشاں
جو متروک راستوں کی طرف جا مڑتے ہیں
میں نے دیکھا ہے پرندوں کے گھونسلوں میں
گلابی امیدوں کو پلتے
پھر خالی گھونسلے
جو فانوسوں کی مانند
ٹہنیوں پر لٹکتے ہیں
میں نے دیکھا ہے ہزاروں میل کی مسافت پر
نکلی بدلیوں کو
جو فلک بوس چوٹیوں کی امانت سنبھالے چلتے چلتے
کہیں کسی ریگ زار میں
چند بوندوں کی صورت
چھلک پڑتی ہیں
سبین علی


گرمیوں کی ایک دوپہر

گرمیوں کی ایک دوپہر

جب میں گھر کی جانب پلٹی
سرخ اینٹوں کی گلی میں
کولتار بچھا دیکھا تھا
عشق پیچان کے سارے پھول
اپنی ہی بیل کے نیچے
گٹر کے ڈھکن پر ادھ موئے پڑے تھے
پرانے جامن کے پیڑ میں
برسوں کا مکیں کوؤں کا جوڑا
سر پر آ کے منڈلانے لگا
مادہ نے اس کی ہنکارا بھرنے جیسا کاں…. کہا
ہار سنگھار کے دونوں پودے
حبس میں نڈھال کھڑے تھے
چھت کے جنگلے تک پھیلی
پھولوں سے لدی بوگن ویلیا تک
نہ کسی نے پہچانا مجھے
جامن پر اُس برس بور بھی کم آیا تھا
چند سوکھے جامنوں نے
قدموں میں گر کر
پرانی شناسائی کا بھرم رکھا تھا
چند ہی پل تو گزرے تھے
لیکن منظر سارے بدل گئے
جانے کیوں؟

سبین علی

کافی بابا بلھے شاہ بمعہ اردو ترجمہ

علموں بس کریں او یار
اِکّو اَلف تیرے دَرکار

علم نہ آوے وچ شمار
اِکّو اَلف تیرے دَرکار
جاندی عمر نہیں اَتبار
علموں بس کریں او یار

علم شمار میں نہیں آتا
تمہیں فقط ایک الف درکار ہے
گزرتی عمر کا کوئی اعتبار نہیں
خالی علم سے گریز کرنا پیارے ساتھی

پڑھ پڑھ لکھ لکھ لاویں ڈھیر
ڈھیر کتاباں چار چُفیر
گردے چانن وچ اَنھیر
پچھو راہ ؟ تے خبر نہ سار

علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ اور لکھ لکھ کر تو نے ڈھیر لگا دیے ہیں
چاروں طرف کتابوں کے انبار ہیں
تمہارے اردگرد روشنی اور اندر تیرگی ہے
اگر راہ پوچھیں تو تجھے خبر ہے نہ اندازہ
خالی علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

پڑھ پڑھ شیخ مشایخ ہویا
بھر بھر پیٹ نِیندر بھر سویا
جاندی وار نین بھر رویا
ڈبا وچ اُرار نہ پار

علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ کر تم شیخ المشائخ بن گئے
مگر پیٹ بھر کر کھاتے اور غفلت کی نیند سوتے رہے
وقت آخر آنکھ بھر بھر کر روئے مگر وہ آنسو پار نہ لگا سکے
خالی علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

پڑھ پڑھ شیخ مشایخ کہاویں
الٹے مسئلے گھروں بناویں
بے علماں نوں لٹ لٹ کھاویں
چھوٹھے سچے کریں اِقرار

علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ کر تم شیخ المشائخ کہلانے لگے
اپنی طرف سے فقہی مسائل گھڑنے لگے
اور بے علم لوگوں کو لوٹ لوٹ کر کھانا شروع کر دیا
جھوٹے سچے اقرار کر کے

خالی علم سے گریز کرنا اور پیارے ساتھی

پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
اُچیاں بانگاں چانگاں ماریں
منبر تے چڑھ واعظ پکاریں
کیتا تینوں علم خوار
علموں بس کریں او یار

تمہاری زندگی نفل عبادات سے معمور ہے
مگر تمہاری اونچی اذان فقط کھوکھلی آواز ہے
منبر پر بیٹھ کر تم واعظ دیتے ہو
تمہیں بے عمل علم نے خوار کر دیا ہے
خالی علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

پڑھ پڑھ مُلاں ہوئے قاضی
اللہ علماں باجھوں راضی
ہووے حرص دنوں دن تازی
تینوں کیتا حرص خوار

علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ کر ملا قاضی بن گئے ہیں
جبکہ اللہ علم کے بغیر بھی راضی ہو جاتا ہے
تمہاری حرص دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے
تمہیں اس حرص نے خوار کر دیا ہے
خالی علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

پڑھ پڑھ مسئلے روز سناویں
کھانا شک شبہے دا کھاویں
دسے ہور تے ہور کماویں
اندر کھوٹ ، باہر سچیار

علموں بس کریں او یار

تم ہر روز نئے سے نئے فقہی مسائل سناتے ہو
مگر تمہارا اپنا کھانا رزق حلال نہیں بلکہ شبہے کا ہے
تم بتاتے کچھ اور ہو اور کماتے کچھ اور ہو تمہارے اندر کھوٹ اور باہر سچائی ہے
خالی علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

پڑھ پڑھ علم نجوم وَچارے
گندا راساں بُرج ستارے
پڑھے عزیمتاں منتر چھاڑے
اَبجد گنے تعویذ شمار

علموں بس کریں او یار

علم نجوم پڑھنے والے بیچارے ہیں
جو برج اور ستاروں کی چال دیکھتے رہتے ہیں
فسوں پڑھتے اور منتر پھونکتے ہیں
ابجد کا علم حاصل کرتے اور تعویذ شمار کرتے ہیں
علم سے گریز کرنا اور پیارے ساتھی

علموں پئے قضّئے ہور
اَکھیں والے انھّے کور
پھڑے سادھ تے چھڈے چور
دوہیں جہانیں ہویا خوار

علموں بس کریں او یار

علم نے کئی قضایا کو جنم دیا ہے
صاحب بصارت کور چشمی کا شکار ہیں
انہوں نے معصوم گرفتار کر لیے ہیں جبکہ چور کھلے بندوں پھر رہے ہیں
یہ دونوں جہانوں میں خوار ہوگا
خالی علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

بوہتا علم عزازیل نے پڑھیا
جُھگا جھاہا اوس دا سَڑیا
گل وچ طوق لعنت دا پَڑیا
آخر گیا اوہ بازی ہار

علموں بس کریں او یار

عزازیل (ابلیس) نے بھی بہت علم پڑھا تھا
لیکن اس کی سب جمع پونچی راکھ ہوئی
اس کے گلے میں لعنت کا طوق ہے
بالآخر وہ بازی ہار گیا
خالی علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

جد میں سبق عشق دا پڑھیا
دریا ویکھ وَحدت دا وڑیا
گھمن گھیراں دے وچ اَڑیا
شاہ عنائت لایا پار

علموں بس کریں او یار

جب میں نے عشق کا سبق پڑھا
میں وحدت کے دریا میں داخل ہوا
اور منجدھار میں پھنس گیا
شاہ عنایت نے مجھے پار لگایا
خالی علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

بلّھا رافضی نہ ہے سنی
عالم فاضل نہ عامل جُنّی
اِکو پڑھیا علم لدّنی
واحد اَلف میم دَرکار

علموں بس کریں او یار
بلھا نہ رافضی ہے نہ سنی ہے
نہ وہ عالم فاضل ہے نہ ہی عالم جنّی ہے
اس نے فقط علم لدّنی حاصل کیا ہے
اسے ایک الف اور ایک میم درکار ہے
علم سے گریز کرنا او پیارے ساتھی

کلام: بابا بلھے شاہ
اردو ترجمہ: سبین علی

کئی بار لکھنا اتنا درد کیوں دیتا ہے؟

کئی بار لکھنا اتنا درد کیوں دیتا ہے؟

حرف کیوں جڑتے ہیں

لفظ کیوں بنتے ہیں

اور اس بننے بگڑنے میں

ہمارے وجود کے سنگریزے

ریزہ ریزہ ہو کر

کیوں شامل ہو جاتے ہیں

کیا شہرت کا سرمستی اس درد کا مداوا کرتی ہے؟

یا کسی کردار کے ہونٹوں پر آئی مسکان

لبوں پہ دم توڑتی دعا

مصنف کی ہمرکاب بنتی ہے

حرف سے لفظ

لفظ سے سطر

پھر کہانی کا سفر

ندی کے بہاؤ کی مانند

کئی تخریب کاریاں اپنے جلو میں سمیٹے

بہتا چلا جاتا ہے

آخر ہم لکھتے کیوں ہیں؟

جب کہ یہ جانتے ہیں

لکھنا درد دیتا ہے

سبین علی

ہمجولی

شہر کے ہنگاموں میں
سائرن بجاتی گاڑیوں کے بیچ
وہ چپکے سے آتی ہے
جیسے ایک دم سے پورے شہر کی
بجلی منقطع ہو جائے
ٹریفک تھم جائے
جیسے جھٹپٹے کا وقت ہو
اور سمندر کی موجیں رک کر
غرق ہوتا سورج دیکھنے لگیں
وہ جنگل کی سرسراتی ہواؤں کے درمیان
گھنی سبز شاخوں کے بیچ
برسنے لگتی ہے
سینکڑوں آدمیوں کے ہجوم میں
لاؤڈ اسپیکر پر تقریریں سنتے
کانوں پر ڈھکن سے لگ جاتے ہیں
ہر طرف گہرا سکوت پھیل جاتا ہے
کئی بار کانفرنس میٹینگ میں شرکت کرتے
چپکے سے اس کے نقش پا
دشت دل کی ریت پر
اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں
جسم پاس ہوتے ہیں
مگر روحیں ماورائی تخیل کے سفر پر
جا نکلتی ہیں
سوتے میں اچانک اپنے ہی بستر پر
طویل سفر کی تکان
آن لیتی ہے
سرد ہوتے وجود کو
کمبل کی مانند اوڑھ لیتی ہے
یہ اداسی
کبھی بھی کہیں بھی
بچھڑی ہمجولی کی مانند
چپکے سے آکر گلے لگ جاتی ہے

سبین علی

نمکین ساحلوں سے

شام کے وقت طویل پرواز کے بعد
تھکے ہارے مہاجر پرندوں کے
اجنبی جھیلوں پر پہلے پڑاؤ کی مانند
ویران راہگزر پر اگے تنہا شجر کے ساتھ
صحرا کی زرد ریت پر
برف کی اجلی چادر کی مانند
اگر اداس لمحوں کا کوئی چہرہ ہوتا
تو اس کے خدوخال اس ہنسی کے جیسے ہوتے
جو اپنا پیارا دوست چار دن بکھیرے
پھر دور چلا جائے
خالی کمروں میں ہنسی کی بازگشت
حیران دیواروں پر ٹنگی نظر آئے
جیسے جھٹپٹے کے وقت سمندر کی جھاگ اڑاتی سرکش موجیں
ٹھہر جائیں
سورج کو اپنے ساحلوں سے الوداع کہیں
اجنبی جزیروں پر
طلوع ہونے کے لیے
اور زرد روشنی میں ریت کے موٹے ذروں پر
پانیوں میں جمے نمک کی تہہ چمکنے لگے
دن بھر ننھی مچھلیوں کے غول میں
اٹکھیلیاں کرتی سفید جھاگ
پاؤں تلے بچھی نرم ریت میں
گم ہونے لگے

سبین علی